تحریر: مولانا مصطفیٰ علی خان
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ
سورہ حج، آیت 32
یہ ہمارا فیصلہ ہے اور جو بھی اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے گا یہ تعظیم اس کے دل کے تقویٰ کا نتیجہ ہوگی۔
شعائر اللہ یعنی ہر وہ چیز جس سے انسان کو اللہ کی یاد آئے اور معرفت و قرب پروردگار میں اضافہ کا سبب ہو۔ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کریم میں شعائر کے نمونے پیش کرتے ہوئے بعض کی جانب صراحت بھی فرمائی ہے۔ جیسے مناسک حج، صفا و مروہ اور قربانی کے جانور کو شعائر الہی بتایا ہے۔
بہر حال جس سے بھی انسان کو اللہ کی یاد آئے اور انسان اپنے اندر قرب خدا محسوس کرے اور معرفت پروردگار میں اضافہ کا احساس کرے تو وہی شعائر الہی ہے۔ اگر ہم اس نکتہ کی روشنی میں حضرت ابوجعفر امام محمد باقر علیہ السلام کی حدیث شریف کہ جسمیں آپؑ نے فرمایا۔ بِنَا عُبِدَ اَللَّهُ وَ بِنَا عُرِفَ اَللَّهُ وَ بِنَا وُحِّدَ اَللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى
ہمارے سبب اللہ کی عبادت ہوئی اور ہمارے ہی سبب اللہ کی معرفت ہوئی اور ہمارے ہی سبب اللہ تبارک و تعالیٰ کو ایک مانا گیا۔ (اصول کافی، جلد 1، صفحہ 199)
اس حدیث شریف سے واضح ہوتا ہے کہ ائمہ معصومین علیہم السلام کے سبب ہی انسان اللہ کا قرب پا سکتا ہے، دشمنان خدا اس حی القیوم کو تو ختم نہیں کر سکتے تھے لہذا انھوں نے اس کے نمایندوں کو شہید کیا نہ جانے کتنے انبیاء اور مرسلین علیہم السلام راہ خدا میں شہید کر دئے گئے ،خود ہمارے حضور سرکار ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ بھی شہید ہوئے آپ نے اپنی شہادت سے قبل حکم خدا سے اپنے بارہ معصوم اولیاء اور خلفاء کا اعلان کیا۔
وہ بارہ امام کہ جنمیں پہلے امیرالمومنین امام علی علیہ السلام ، دوسرے کریم اہل بیت امام حسن علیہ السلام ، تیسرے وارث انبیاء امام الاحرار امام حسین علیہ السلام ، اس کے بعد امام زین العابدین علیہ السلام ، امام محمد باقر علیہ السلام ، امام جعفر صادق علیہ السلام ، امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ، امام علی رضا علیہ السلام ، امام محمد تقی علیہ السلام ، امام علی نقی علیہ السلام ، امام حسن عسکری علیہ السلام، بارہویں اور آخری امام حضرت ولی عصر صلواۃ اللہ و سلامہ علیہ و علیٰ آبائہ الطاہرین وعجل اللہ فرجہ الشریف ہیں ۔
گیارہ اماموں کو دشمنان خدا نے شہید کر دیا، ہمارے بارہویں امام علیہ السلام زندہ اور پردہ غیب میں ہیں۔
قرآن کا فیصلہ ہے بلکہ یہ ایسی حقیقت ہے جو خالق موت کا اقرار نہیں کرتا وہ بھی یہ ماننے پر مجبور ہے کہ موت سے کسی کو فرار نہیں ۔ موت کے سلسلہ میں عام تصور یہی ہے کہ موت انسان کا خاتمہ ہے۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو لیکن یہ ان لوگوں کے لئے خاتمہ ہو گی جو دنیا میں لہو و لعب میں غرق ہو۔ لیکن جنکی زندگیاں اطاعت پروردگار میں بسر ہوں اور اسی اطاعت میں دنیا سے گذر جائیں یا راہ خدا میں قتل کر دئے جائیں تو وہ موت کو مات دے دیتے ہیں ۔
وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ
اور جو لوگ راہ خدا میں قتل ہوجاتے ہیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہے۔ (سورہ بقرہ، آیت 154)
اسی طرح سورہ آل عمران آیت 169 میں ارشاد ہو رہا ہے۔
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ
اور خبردار راہ خدا میں قتل ہونے والوں کو مردہ خیال نہ کرنا وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے یہاں رزق پا رہے ہیں۔
مذکورہ آیتوں سے واضح ہوا کہ قتل شہید راہ خدا کا خاتمہ نہیں بلکہ وہ زندہ رہتا ہے اگرچہ ہم ان کی زندگی کو نہ سمجھ سکیں اور شہید اپنے پروردگار کے پاس سے رزق پاتا ہے۔
دشمن نے ائمہ معصومین علیہم السلام کو قتل کر کے سوچا تھا کہ وہ ختم ہو جائیں گے لیکن راہ خدا میں ان کا قتل شہادت قرار پایا اور حی خدا نے انہیں حیات طیب و طاہر عطا کر دی کہ جس طرح جب وہ ظاہراً دنیا میں تھے تو قرب خدا کا وسیلہ تھے، اللہ کی معرفت کا ذریعہ تھے اسی طرح ان کی شہادت کے بعد ان کے قبور پاک کی زیارت زائر کو خدا سے قریب کرتی ہے اور معرفت خدا میں اضافہ کا سبب قرار پاتی ہے۔
اگر ہم یہ کہیں تو زیادہ مناسب ہو گا کہ معصومین علیہم السلام کے روضے توحید پروردگار کی علامت ہیں ۔ اسی لئے دشمنان توحید نے بنام توحید آپ کے مزارات کو منہدم کر دیا تا کہ لوگ خدا سے دور ہو جائیں اور دنیا میں بے دینی پھیل جائے۔
آل سعود نے اپنے اسی باطل نظریہ اور باطل مقصد کی خاطر 8 شوال سن 1344 ہجری کو جنت البقیع ویران کیا اور آج ایک سو ایک سال ہو گئے معصومین علیہم السلام کے قبور مبارک ویران ہیں ۔
کتنے افسوس کی با ت ہے کہ سو سال سے زیادہ عرصہ گذرنے کے بعد بھی یہ ویران ہیں کوئی ان مزاروں پر چراغ جلانے والا نہیں ہے۔
جنت البقیع کا مسئلہ خالص اسلامی اور انسانی ہے بلکہ اگر میں یہ کہوں تو مبالغہ نہیں ہو گا کہ تحریک تعمیر جنت البقیع کا تعلق کسی دین اور مذہب سے نہیں بلکہ انسان کی فطرت اور اس کی غیرت اور احسان مندی سے ہے۔
دنیا کا دستور ہے وہ اپنے رہبروں اور محسنوں کی قبروں بلکہ دیگر آثار کا احترام کرتے ہیں ، اسی جنت البقیع میں شیعہ عقیدہ سے قطع نظر مسلمانوں کے پانچویں خلیفہ راشد یعنی امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی قبر ہے، اسی جنت البقیع میں انسانی اقدار کے پاسبان واقعہ ، واقعہ کربلا کے محافظ و مبلغ امام زین العابدین علیہ السلام کی قبر ہے، اسی جنت البقیع میں امامین باقرین و صادقین علیہما السلام کی قبریں ہیں جنہوں نے اسلامی عقائد و اخلاق اور احکام کی تعلیم و تربیت فرمائی ، نہ صرف شیعہ فقہ بلکہ دیگر چار فقہی مکاتب کے بانیان نے بھی بلا واسطہ یا با واسطہ آپ ہی سے کسب فیض کیا۔
آخر میں ہم اس عظیم یوم غم پر تمام اہل ایمان کو تعزیت پیش کرتے ہیں اور گذارش کرتے ہیں کہ ہم سب کو اپنی انا کو ختم کرتے ہوئے اس سلسلہ میں سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا اور نہ صرف 8 شوال بلکہ پورے سال اس سلسلہ میں سوچنے سمجھنے، مشورے اور مناسب اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔
اگرچہ ہمیں یقین ہے کہ وارث بقیع زندہ ہے اور جب ظہور ہو گا تو یقیناً یہ مزارات تعمیر ہوں ۔
خدایا! وارث بقیع کے ظہور میں تعجیل فرما۔